وہ کمرے میں آیا
دروازہ بند کیا
کپڑے کھونٹی پہ ٹانگ دیئے
میرے کپڑے میرے تن کو پہلے ہی چھوڑ چکے تھے
ویسے ہی جیسے زلزلے سے قبل پرندے مسکن چھوڑ جاتے
ہیں
اور پھر زلزلہ آنا شروع ہوگیا
زلزلہ جس نے میرے وجود کو ہلا دیا
میری اٹھان کو ڈھا دیا
میری ڈھلان کو زمیں بوس کردیا
اسے میری رضامندی کی ضرورت نہیں تھی
ہاں نکاح کے بعد مرد کو رضامندی کی ضروت نہیں
رہتی
ضرورت رہتی ہے تو صرف
بیوی کے نام پہ گوشت پوست کے اس جسم کی
جس کا وہ مجازی خدا ہے
مجازی
یا مزاجی
No comments:
Post a Comment